شاہد افراز خان ،بیجنگ
حالیہ عرصے میں چین ایک مربوط خلائی ڈھانچے کی تعمیر میں نمایاں پیش رفت حاصل کر چکا ہے اور سیٹلائٹ کمیونیکیشن، سیٹلائٹ ریموٹ سینسنگ، اور سیٹلائٹ نیویگیشن سے منسلک مربوط قومی خلائی انفراسٹرکچر سسٹم تشکیل دیا گیا ہے۔ چین کی جانب سے عالمی اسپیس تعاون کو فروغ دینے کی بات کی جائے تو ملک کے قومی خلائی ادارے نے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ڈیٹا کی مشترکہ تعمیر اور اشتراک کو مزید فروغ دینے کے لیے باضابطہ طور پر "نیشنل ریموٹ سینسنگ ڈیٹا اینڈ ایپلیکیشن سروس پلیٹ فارم” بھی تشکیل دیا ہے۔اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئےچین کی جانب سے حال ہی میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ وہ آئندہ 10 سے 15 سالوں میں اپنے خلائی اسٹیشن پر ایک ہزار سے زائد سائنسی تجربات کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس خاطر چینی خلائی اسٹیشن کو کامیابی کے ساتھ منظم کیا گیا ہے ، جس میں سائنسی تجربات کے لئے تمام سہولیات نصب ہیں۔ اگلی دہائی تک یہ خلائی اسٹیشن اطلاق اور ترقی کے مرحلے میں داخل ہوگا اور سائنس دانوں اور انجینئروں کے لیے خلا کے راز وں کو دریافت کرنے کے لیے ایک تحقیقی پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے گا۔اس حوالے سےچائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے ٹیکنالوجی اینڈ انجینئرنگ سینٹر فار اسپیس یوٹیلائزیشن کے مطابق خلائی اسٹیشن پر 60 سے زائد تحقیقی منصوبے پہلے ہی جاری ہیں۔چینی ماہرین کی جانب سے راکٹ انجنوں کے بلیڈز کے لیے مزید جدید مواد کی تلاش کا منصوبہ ترتیب دیا جا رہا ہے جبکہ لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بہتر بایومیٹریل اور بہت سے دیگر مواد کی تلاش بھی کی جائے گی۔
خلائی سائنسی منصوبوں کا ایپلی کیشن سسٹم
چائنا مینڈ اسپیس ایجنسی کے مطابق خلائی اسٹیشن میں خلائی سائنس سے متعلق منصوبوں کے لیے ایپلی کیشن سسٹم سائنس دانوں اور انجینئروں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔اس ضمن میں ایجنسی ، خلائی سائنس اور انسانی تحقیق، مائکرو گریویٹی میں طبیعیات، خلائی فلکیات اور ارضیاتی سائنس کے ساتھ ساتھ نئی خلائی ٹیکنالوجیز اور ایپلی کیشنز کا احاطہ کرنے والے منصوبوں کو آگے بڑھائے گی۔خلائی اسٹیشن میں سائنسی تحقیق، تکنیکی تجربات اور مختلف شعبوں میں ایپلی کیشنز کی حمایت کے لئے ماڈیولز کے باہر تجرباتی پلیٹ فارم، معیاری پے لوڈ انٹرفیس اور بڑے پے لوڈ ہینگ پوائنٹس بھی موجود ہیں۔
عالمی اسپیس تعاون
وسیع تناظر میں چین اپنی خلائی صنعت کو ترقی دینے کے لیے "جامع مشاورت ، اشتراکی تعمیر اور مشترکہ ثمرات” کے تصور پر عمل پیرا ہے ، اور اسپیس کے میدان میں بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ 30 سالوں کے دوران ، چین نے 40 سے زائد ممالک یا خطوں اور متعدد بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ خلا کے میدان میں 135 سے زائد تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں ، متعدد قومی خلائی ایجنسیوں کے ساتھ خلائی تعاون کے خاکے پر دستخط کیے ہیں ، اور 15 سے زائد خلائی تعاون میکانزم قائم کیے ہیں۔
چین پاکستان اسپیس تعاون
پاکستان کے تناظر میں ، چین اور پاکستان تین دہائیوں سے زائد عرصے سے خلا کے میدان میں تعاون کر رہے ہیں اور 1990 کے اوائل میں چین کے لانگ مارچ 2 راکٹ کو پہلی بار کامیابی کے ساتھ لانچ کیا گیا جس سے پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ (بدر۔اے) مدار میں بھیجا گیا ۔ 2011 میں چائنیز اکیڈمی آف اسپیس ٹیکنالوجی کی جانب سے تیار کردہ پاکستان کمیونیکیشن سیٹلائٹ 1 آر (پاک سیٹ-1 آر) کو لانگ مارچ 3 بی کیریئر راکٹ کے ذریعے کامیابی سے لانچ کیا گیا تھا جو پاکستان کو براڈ بینڈ انٹرنیٹ، ٹیلی کمیونیکیشن اور براڈکاسٹنگ سروسز فراہم کرتا ہے اور تاحال دس سال سے زائد عرصے سے مدار میں موجود ہے۔ 2019 میں چین اور پاکستان نے انسان بردار خلائی پرواز تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے، جو دونوں ممالک کے درمیان اس شعبے میں تعاون کے ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتا ہے۔ 5 جون2022کو سات پاکستانی پودوں کے بیج شینزو 14 خلائی جہاز کے ذریعے چین کے خلائی اسٹیشن تک پہنچے، اور چھ ماہ تک خلا میں رہنے کے بعد زمین پر واپس آئے۔یوں ، پاکستانی اجناس کی خلائی افزائش نسل کا ایک نیا آغاز ہو چکا ہے جو چین پاکستان سائنسی و تکنیکی تعاون میں اہم ایک سنگ میل ہے۔ آج ، چین کی انسان بردار خلائی تحقیق کو دو دہائیوں سے زائد ہو چکے ہیں ۔اس دوران متعدد چینی خلا باز ، خلا میں جا چکے ہیں ۔خلائی شعبے میں چین کی ترقی حکومتی سطح سے انفرادی سطح تک ، سائنسی اور تکنیکی ترقی کو فوقیت دینے کی مظہر ہے ۔ چین نے ہمیشہ تمام بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کے جذبے کے تحت خلا کو پرامن طریقے سے استعمال کیا ہے اور اس سلسلے میں دوسرے ممالک کے ساتھ رابطے اور تعاون کو برقرار رکھنے کے لیے بھی تیار ہے ،جس کا واضح ثبوت چین کا خلا میں 1000 سے زائد سائنسی تجربات کا عزم ہے۔