شاہد افراز خان ،بیجنگ
حالیہ عرصے میں دنیا نے دیکھا ہے کہ برکس ممالک ، ترقی پذیر ممالک کے مشترکہ اٹھان کی اہم علامت بن چکے ہیں اور برکس تعاون، ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کے اتحاد و تعاون کی مثال بن چکا ہے۔ یہ نہ صرف ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان تعاون کا ایک اہم میکانزم بن چکا ہے بلکہ جنوب جنوب تعاون کے لیے بھی ایک اہم ترین پلیٹ فارم میں ڈھل چکا ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے ، برکس ممالک عالمی سطح پر اپنے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور اہمیت کے باعث ایک مثبت اور مستحکم تعمیری قوت بن چکے ہیں۔اس عرصے کے دوران برکس میکانزم ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کی بڑی تعداد سے قریبی طور پر منسلک رہا ہے۔
برکس کے اہم رکن کی حیثیت سے چین نے ہمیشہ اس پلیٹ فارم میں توسیع کی فعال حمایت کی ہے اور "برکس پلس” تعاون کو وسعت دے رہا ہے۔ برکس کے کھلے تعاون اور جامعیت کے تناظر میں چین نے تمام برکس فریقوں پر ہمیشہ زور دیا ہے کہ وہ رکنیت کی توسیع کے معاملے پر گہرائی سے بات چیت جاری رکھیں، اتفاق رائے کی بنیاد پر رکنیت کی توسیع کے لیے معیارات اور طریقہ کار وضع کریں اور مزید ہم خیال شراکت داروں کو "برکس فیملی” میں شامل کریں۔یہ چین کا تعمیری عملی کردار ہی ہے کہ برکس میں شامل دنیا کی سب سے بڑی ابھرتی ہوئی معیشتیں خلائی پروگراموں سے لے کر آن لائن شاپنگ تک تکنیکی شعبوں میں گہرے تعلقات قائم کر رہی ہیں۔
چین اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے درمیان برسوں کے قریبی ٹیکنالوجی تعاون نے آج کی یکطرفہ اور تحفظ پسندی کی دنیا میں بین الاقوامی تعاون کی اہمیت کو ظاہر کیا ہے۔رواں ماہ کے اوائل میں چین نے برکس ممالک کے اپنے ہم منصبوں کو بتایا تھا کہ چین ٹیکنالوجی کی جدت طرازی میں تعاون کو گہرا کرنے اور تبادلوں کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔چین کے اس عزم کی بازگشت ایک مشترکہ بیان میں بھی کی گئی جس میں کثیر الجہتی اور برکس ممالک کے درمیان تکنیکی شراکت داری کے امکانات پر زور دیا گیا۔
اسی تناظر میں22 اگست سے شروع ہونے والا آئندہ برکس سربراہ اجلاس کووڈ 19 کے بعد آف لائن منعقد ہونے والا پہلا برکس سربراہ اجلاس ہوگا۔ چین نے اس حوالے سے یہ توقع ظاہر کی ہے کہ اجلاس کے دوران پانچوں ممالک کے رہنما بین الاقوامی چیلنجز پر تبادلہ خیال کریں گے اور بین الاقوامی امور میں ہم آہنگی اور تعاون میں اضافہ کریں گے کیونکہ برکس ممالک تبدیلیوں اور افراتفری سے بھری دنیا میں استحکام اور مثبت توانائی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
برکس تکنیکی تعاون کو آگے بڑھانے کی بات کی جائے تو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت اور وائرلیس کمیونی کیشنز سے لے کر کوانٹم کمپیوٹنگ تک نئی ٹیکنالوجیز کے تحقیقی پاور ہاؤس کی حیثیت سے چین نے ضرورت مند ممالک کے ساتھ فعال طور پر اپنی معلومات کا اشتراک کیا ہے۔اس کی واضح مثال یہ بھی ہے کہ چین کی نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن برکس ممالک کے ساتھ ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ پروگرام پر کام کر رہی ہے جو 2021 میں دستخط شدہ ڈیٹا شیئرنگ معاہدے کا جزو ہے جس سے شریک ممالک کو سیٹلائٹ ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کی بہتر نگرانی کرنے میں مدد ملتی ہے۔ چین نے اس سے قبل نومبر میں پانچ ملکی اجلاس میں اپنے ہم منصبوں کو بتایا تھا کہ اُس نے اپنی انسان بردار خلائی لیب کی تعمیر مکمل کی ہے، خلائی ٹیکنالوجی میں چین اپنی کامیابیوں کو بانٹنے کے لئے تیار ہے اور سیٹلائٹ پارٹنرشپ اس مقصد کو آگے بڑھانےکی ایک مثال بننے جا رہی ہے۔
یہ امر قابل زکر ہے کہ چین نے 161 ممالک، خطوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ ٹیکنالوجی تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ یہ 200 سے زائد بین الاقوامی یا کثیر الجہتی میکانزم کا رکن بھی ہے۔ چین تھرمونیوکلیئر تجرباتی ری ایکٹر اور دنیا کی جدید ترین دوربینوں میں سے ایک تیار کرنے کی بین الاقوامی کوششوں میں شامل ہو چکا۔ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی، تحفظ خوراک اور صحت کی تحقیق پر چین پہلے ہی برکس ممالک اور دیگر دنیا کے ساتھ کام کر رہا ہے۔
برکس کی قومی جدت طرازی مسابقت کی ترقیاتی رپورٹ کے مطابق برکس ممالک نے دنیا بھر میں آر اینڈ ڈی اخراجات کا چھٹا حصہ اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے تمام تحقیقی مقالوں کا ایک چوتھائی حصہ دیا ہے۔ان پانچ ممالک نے 6 ٹریلین ڈالر سے زائد کی جدید ٹیکنالوجی کی مصنوعات بھی برآمد کی ہیں ، جو دنیا کی کل مصنوعات کا ایک چوتھائی ہے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ برکس ممالک بائیو ٹیک، موسمیاتی تبدیلی، نئی توانائی کی ترقی، خلائی ٹیکنالوجی سمیت متعدد شعبوں میں وسیع تعاون کے امکانات رکھتے ہیں۔
بین الحکومتی تعاون کے علاوہ کئی چینی کمپنیاں بھی برکس ممالک میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ چین ، روس اور جنوبی افریقہ سمیت بہت سی ترقی پذیر معیشتوں کا اہم تجارتی شراکت دار ہے۔ شیاؤمی سمیت دیگر چینی اسمارٹ فون برانڈز بھارت اور برازیل میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والوں میں شامل ہیں۔ایسی ٹیکنالوجیز جو پہلے ہی چین میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی ہیں ، جیسے موبائل فون ادائیگی ، اسمارٹ فونز اور آن لائن شاپنگ ، افریقہ میں بھی تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ چینی کمپنیاں ایسے افریقی ممالک کی مدد کر رہی ہیں جو ای کامرس نیٹ ورکس، فوڈ ڈیلیوری اور دیگر خدمات کی تعمیر کے لیے مضبوط ٹیکنالوجی سے آراستہ نہیں تھے۔ یوں ،حقائق کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ برکس تعاون کثیرالجہتی کی ایک شاندار کامیابی ہے جسے ترقی کو ترجیح دینے، عوام کو وقعت دینے، اشتراکی اور جامعیت پر عمل پیرا ہونے کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔