کالمچین

بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو مستقبل کا راستہ ہے

شاہد افراز خان ،بیجنگ

 مینوفیکچررز اور قرض دہندگان سے لے کر مشاورتی خدمات فراہم کرنے والوں تک ، ملٹی نیشنل اداروں کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) منصوبوں میں حصہ لیتے ہوئے دیکھنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ان میں سے متعدد اداروں نے بلند عزائم کے ساتھ،  اپنی عالمی موجودگی کو بڑھانے اور دنیا بھر میں کاروباری منظر نامے کو آگے بڑھانے کے لئے بی آر آئی کے ذریعہ فراہم کردہ مواقع کو اپنا لیا ہے۔آج ، ملٹی نیشنل کمپنیاں بی آر آئی کے تحت دنیا بھر میں انفراسٹرکچر کنکٹیویٹی کو آسان بنانے، تجارت کو ہموار کرنے اور مالیاتی انضمام کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں بڑے پیمانے پر کاروباری مواقع اور مالیاتی ثمرات بھی میسر آئے ہیں۔اس کی ایک بنیادی وجہ یہی ہے کہ بی آر آئی تعاون نے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر جیسے مختلف شعبوں میں مصنوعات، سرمایہ کاری اور اقتصادی تعاون کی زبردست مانگ پیدا کی ہے۔ بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بی آر آئی کے تحت اپنی عالمی ساکھ کو ترتیب دیا ہے تاکہ مختلف فریقوں کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنایا جاسکے اور ترقیاتی امکانات کو وسیع کیا جاسکے۔

درحقیقت بی آر آئی تعاون ، ممالک اور کاروباری اداروں کو دوطرفہ تعاون، تھرڈ پارٹی مارکیٹ تعاون اور کثیر الجہتی تعاون جیسے مختلف طریقوں کے ذریعے مشغول ہونے کی ترغیب دیتا ہے جس سے ترقی کے لیے ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ تھرڈ پارٹی مارکیٹ تعاون میں شامل ہو کر، مختلف ممالک کے کاروباری ادارے منصوبوں کو انجام دینے کے لئے مل کر کام کرسکتے ہیں، جس سے بڑے منصوبوں سے متعلق درپیش خطرات کو کم کیا جاسکتا ہے. 2013 میں بی آر آئی کی تجویز کے بعد سے، تعاون کے 3000 سے زیادہ منصوبے شروع کیے گئے ہیں، جن میں تقریباً 1 ٹریلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری شامل ہے، ان سے معاش کے منصوبوں اور تعاون کے سنگ میل پیدا ہوئے ہیں.چینی حکومت نے ہمیشہ واضح کیا ہے کہ وہ بی آر آئی منصوبوں میں حصہ لینے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے کھلے رویے پر عمل پیرا ہے ، کیونکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور چینی فرموں کے پاس تکمیلی تعاون ہے۔

یہ بی آر آئی کا سحر ہی ہے کہ تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم برائے بین الاقوامی تعاون نے دنیا بھر کے 140 سے زائد ممالک اور 30 سے زائد بین الاقوامی تنظیموں کو اپنی جانب متوجہ کیاہے، جس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ گزشتہ 10 سالوں میں "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو” کی مشترکہ تعمیر نے دنیا میں نئی ٹھوس تبدیلیاں لائی ہیں۔گزشتہ 10 سالوں میں ، "بیلٹ اینڈ روڈ”  کے تحت کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ جون 2023 کے اواخر تک چین  150 سے زائد ممالک اور 30 سے زائد بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ 200 سے زائد تعاون کی دستاویزات پر دستخط کر چکا ہے۔ ورلڈ بینک  کے مطابق بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو پر مکمل عمل درآمد سے شریک  ممالک کے درمیان تجارت میں 4.1 فیصد اضافہ ہوگا۔ توقع ہے کہ 2030 تک اس سے سالانہ 1.6 ٹریلین ڈالر کے عالمی فوائد حاصل ہوں گے اور 7.6 ملین افراد کو انتہائی غربت سے نکالا جائے گا۔

 بی آر آئی معاشی فوائد سے کہیں زیادہ ثمرات لا رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی ایک بڑی تعداد کو سرمائے کی کمی جیسی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ چین نے متعلقہ ممالک کے ساتھ سلک روڈ فنڈ اور ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کے قیام، مشترکہ طور پر شراکت دار ممالک کے لئے سرمایہ کاری اور فنانسنگ چینلز کو وسعت دینے اور عالمی اقتصادی گورننس سسٹم کو بہتر بنانے کے لئے مالی اعانت فراہم کی ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں ماحول دوست ترقی کا تصور پائیدار ترقی کے لئے اقوام متحدہ کے 2030 کے ایجنڈے کے عین مطابق ہے اور عالمی موسمیاتی گورننس میں نئی  قوت محرکہ کا اضافہ کر رہا ہے۔مشترکہ مشاورت، مشترکہ تعمیر اور مشترکہ اشتراک ، حکمرانی کا یہ نیا تصور حقیقی کثیرالجہتی پر عمل درآمد کی وکالت کرتا ہے ۔ یہ تصور اس بات پر زور دیتا ہے کہ اجتماعی امور میں اجتمائی فیصلہ کیا جائے  اور تمام فریقوں کی مشترکہ شرکت پر عمل کرتے ہوئے تمام فریقوں  کو ترقیاتی مواقع اور ثمرات شیئر کرنے چاہیے. یہی وہ بنیاد ہے جس کی بنیاد پر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو نے حقیقی  تعاون اور جیت جیت کی تکمیل کی ہے۔ اس انیشی ایٹو کو اقوام متحدہ اور چین افریقہ تعاون  فورم جیسے بین الاقوامی تنظیموں اور میکانزم کی اہم دستاویزات میں بھی شامل گیا ہے ، جس سے عالمی حکمرانی کے نئے فارمولے سامنے آئے ہیں۔حقائق کے تناظر میں چین ، اپنی ترقی کے ساتھ دنیا میں نئے مواقع لایا ہے اور بنی نوع انسان کے جدید یت کی جانب  راستے کے انتخاب کو وسعت دی  گئی ہے جس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو مستقبل کا راستہ ہے۔

Leave a Reply

Back to top button