کالم

مصنوعی ذہانت کے چیلنجز اور گورننس کی اہمیت

شاہد افراز خان ،بیجنگ

مصنوعی ذہانت

ماہرین کے مطابق چین کے حال ہی میں مجوزہ گلوبل آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) گورننس انیشی ایٹو نے ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کی ترقی اور گورننس کے بارے میں عالمگیر خدشات کو دور کرنے کے لئے ایک تعمیری نقطہ نظر پیش کیا ہے اور اس ضمن میں بین الاقوامی سطح پر مشاورت اور قواعد سازی کے لئے ایک خاکہ تشکیل دیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ عرصے میں مصنوعی ذہانت  تکنیکی ترقی کے وسیع امکانات لے کر سامنے آئی ہے  لیکن دوسری جانب اس کے اطلاق کے حوالے سے مواقع کے ساتھ ساتھ  خطرات اور چیلنجوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جن کے لئے عالمی ردعمل کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہاں اس حقیقت کو بھی دیکھا جائے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس گزرتے وقت کے ساتھ ہماری زندگی، پیداوار کے طریقے اور ترقی کے امکانات کو گہرائی سے تبدیل کر رہی ہے۔ ان میں ٹیکنالوجی، اقتصادی ترقی کے نمونے، قومی گورننس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعلقات کا احاطہ بھی کیا جا سکتا ہے. اس لحاظ سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے معاشرے پر منظم، گہرے اور جامع اثرات کو ہمیشہ مدنظر رکھنا ہو گا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک جانب ، کچھ ممالک اور خطے تیزی سے ترقی پذیر مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کی تفہیم ، اطلاق اور حکمرانی میں بدستور قدرے پیچھے ہیں۔ دوسری جانب، کچھ ممالک اپنی تکنیکی خوبیوں اور بالادستی کو آگے بڑھانے کے لئے اپنے تکنیکی فوائد پر انحصار کر رہے ہیں، جس نے دوسرے ممالک اور لوگوں کے ترقیاتی مفادات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ایسے میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے متعلق گورننس لازم ہو چکی ہے تاکہ یہ تمام ممالک کے مفاد کے مقصد کو آگے بڑھا سکے۔اس ضمن میں چینی صدر شی جن پھنگ کی جانب سے مجوزہ گلوبل آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) گورننس انیشی ایٹو  ایک بروقت اقدام ہے جو ایک بڑے عالمی رہنماء کے طور پر چینی صدر کی دور اندیشی اور بصیرت کا مظہر بھی ہے۔اس اقدام میں مصنوعی ذہانت کی حکمرانی سے متعلق چین کی تجاویز کو منظم طریقے سے تین پہلوؤں سے پیش کیا گیا ہے،جن میں مصنوعی ذہانت کی ترقی، سلامتی اور گورننس شامل ہیں۔

اس اقدام میں چین نے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت کی ترقی میں عوام پر مرکوز نقطہ نظر کو برقرار رکھیں اور انسانیت کی بھلائی کے لئے مصنوعی ذہانت کی ترقی کے اصول پر عمل کریں ، خاص طور پر جب عسکری میدان میں ٹیکنالوجی کا اطلاق ہوتا ہے تو اس میں انسانی پہلو کو فوقیت دی جائے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی مصنوعات اور خدمات برآمد کرتے وقت، فراہم کنندگان کو بیرونی ممالک کی خودمختاری کا احترام کرنا چاہئے، مقامی قوانین کی پاسداری کرنی چاہئے، اور ان کے دائرہ اختیار کو قبول کرنا چاہئے.

یہ اقدام ایک منظم سوچ پر عمل پیرا ہے جو ترقی اور سلامتی کو یکساں اہمیت دیتا ہے، اور دوسرے ممالک کو مصنوعی ذہانت کی ترقی سے روکنے کے لئے نظریاتی لکیریں کھینچنے یا خصوصی گروہ بندی کی مخالفت کرتا ہے۔ اس اقدام کا مقصد مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو انسانی تہذیب کی ترقی کے لئے سازگار سمت اور رہنمائی فراہم کرنا ہے۔ یہ انیشی ایٹو مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو زیادہ محفوظ، قابل اعتماد، قابل کنٹرول اور منصفانہ بنانے کی اہمیت پر زور دیتا ہے، جو اے آئی کی سلامتی کے بارے میں تمام فریقوں کے اہم خدشات کی عکاسی کرتا ہے. یہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے بارے میں بین الاقوامی بحث اور قواعد سازی کے لئے ایک خاکہ فراہم کرتا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ اقدام اتفاق رائے کے حصول کے لئے بات چیت اور تعاون کو مضبوط بنانے کے لئے تمام فریقوں کو اکٹھا کرکے ایک کھلے ، منصفانہ اور موثر بین الاقوامی مصنوعی ذہانت حکمرانی کے میکانزم کی تعمیر میں مدد فراہم کرے گا۔

چین ویسے بھی مصنوعی ذہانت کے میدان میں ہمیشہ موئثر گورننس کا قائل رہا ہے اور عملی اقدامات بھی کیے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی بین الاقوامی گورننس میں حصہ ڈالنے کے لئے چین کی کوششوں کی ایک اور مثال یہ ہے کہ اس کے دو اسکالرز کو اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ 39 رکنی مشاورتی باڈی میں شامل کیا گیا ہے، جس کی تشکیل کا اعلان ابھی حال ہی میں 26 اکتوبر کو کیا گیا تھا۔وسیع تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی یہ اقدام گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو کے بعد عالمی گورننس کے لیے چین کا تجویز کردہ "تازہ ترین حل” ہے جس کے آئندہ عرصے میں دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔

Leave a Reply

Back to top button