شاہد افراز خان ،بیجنگ
ابھی حال ہی میں چین اور امریکہ کے سربراہان مملکت کے درمیان سان فرانسسکو میں سربراہی سمٹ کا انعقاد کیا گیا جسے عالمی سطح پر نمایاں توجہ ملی ہے۔سان فرانسسکو میں چینی صدر شی جن پھنگ اور امریکی صدر جوبائیڈن کے درمیان ملاقات کو تین لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے۔اول ،یہ اسٹریٹجک اہمیت اور دور رس اثرات کا حامل سربراہی اجلاس رہا۔دوسرا ،یہ ملاقات ایک نازک مرحلے پر چین امریکہ تعلقات کے پس منظر میں منعقد کی گئی ہے۔آج بین الاقوامی برادری کو پہلے سے کہیں زیادہ امریکہ اور چین کے درمیان مستحکم تعلقات کی ضرورت ہے۔تیسرا ،دونوں سربراہان مملکت نے بالمشافہ گہرائی سے تبادلہ خیال کیا، ایک دوسرے کے بارے میں صحیح تفہیم قائم کرنے، اختلافات کو مناسب طریقے سے منظم کرنے اور مکالمے اور تعاون کو فروغ دینے جیسے اہم ترین امور پر تبادلہ خیال کیا، اور فلسطین اسرائیل تنازع، یوکرین بحران،موسمیاتی تبدیلی اور مصنوعی ذہانت جیسے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ہمہ جہت مشاورت کی گئی ۔
یہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ دونوں رہنما چین امریکہ تعلقات کی قیادت کر رہے ہیں ، جو نہ صرف دو بڑی معیشتیں بلکہ عالمی اثرو رسوخ کی حامل طاقتیں ہیں اور دونوں پر عوام، دنیا اور تاریخ کی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ لہذا ، دونوں کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک دوسرے کے بارے میں واضح تفہیم حاصل کی جائے، دونوں ممالک کے رہنماؤں کے درمیان کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے، اور اس بات کو یقینی بنانا بھی لازم ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مسابقت تصادم میں تبدیل نہ ہو، اور اسے ذمہ داری سے سنبھالا جائے۔
اسی تناظر میں صدر شی جن پھنگ نے چین امریکہ تعلقات کو مستحکم اور بہتر بنانے کے حوالے سے چین کے مستند موقف کی جامع وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صحیح تاریخی انتخاب کرنا لازم ہے، ساتھ چلنے کا صحیح راستہ تلاش کیا جائے اور سان فرانسسکو وژن کو فروغ دیا جائے۔ صدر شی جن پھنگ نے اس بات کی نشاندہی کی کہ چین اور امریکہ کو مشترکہ طور پر اور مؤثر طریقے سے اختلافات کو حل کرنا چاہیے، مشترکہ طور پر باہمی فائدہ مند تعاون کو فروغ دینا چاہیے، بڑے ممالک کی ذمہ داریوں کو مشترکہ طور پر نبھانا چاہیے اور مشترکہ طور پر عوامی اور ثقافتی تبادلوں کو فروغ دینا چاہیے۔شی جن پھنگ اور ان کے امریکی ہم منصب جو بائیڈن کے درمیان گزشتہ سال انڈونیشیا کے شہر بالی میں ہاتھ ملانے کے بعد یہ دوسری مرتبہ ملاقات ہوئی ہے۔اس دوران دونوں سربراہان مملکت نے چین امریکہ تعلقات کی اہم اسٹریٹجک سمت کے ساتھ ساتھ عالمی امن اور ترقی کو متاثر کرنے والے بڑے مسائل پر امور پر تبادلہ خیال کیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ "ہیڈ آف اسٹیٹ ڈپلومیسی” چین امریکہ تعلقات کا کمپاس اور اینکر ہے۔جب دونوں صدور کی ملاقات ہوئی تو دونوں ممالک کے ساتھ ساتھ باقی بین الاقوامی برادری بھی امید بھری نظروں سے اس کے نتائج دیکھ رہی ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ چین امریکہ تعلقات دنیا کا سب سے اہم دوطرفہ تعلق ہے جو اتار چڑھاو کے باوجود آگے بڑھ رہا ہے۔چین اور امریکہ جیسے دو بڑے ممالک کے لیے ایک دوسرے سے منہ موڑنا کوئی آپشن نہیں ہے۔ ایک فریق کے لئے دوسرے فریق کو "تبدیل کرنا” غیر حقیقی ہے ، اور تنازعات اور تصادم کے دونوں فریقوں کے لئے ناقابل برداشت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔چین کا موقف واضح ہے کہ بڑے ممالک میں "مسابقت” موجودہ دور کا مروجہ رجحان نہیں ہے اور نہ ہی یہ چین اور امریکہ یا مجموعی طور پر دنیا کو درپیش مسائل کو حل کرسکتا ہے۔اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سیارہ یعنیٰ کرہ ارض اتنا بڑا ہے کہ دونوں ممالک کامیاب ہو سکتے ہیں اور ایک ملک کی کامیابی دوسرے ملک کے لیے ایک موقع ہے۔اس کے لیے لازم ہے کہ جب تک دونوں ممالک ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں، امن کے ساتھ مل جل کر کام کرتے ہیں اور باہمی تعاون کو آگے بڑھاتے ہیں، چین اور امریکہ اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے کا صحیح راستہ تلاش کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔
چین امریکہ سربراہی سمٹ کے تناظر میں اس حقیقت کو مدنظر رکھا جائے کہ اس وقت دنیا چیلنجوں اور تبدیلیوں کے دور میں ہے۔ دنیا کے بہتر مستقبل کے لیے لازمی ہے کہ چین اور امریکہ مل کر کام کریں۔ اس حوالے سے پرامن بقائے باہمی بین الاقوامی تعلقات کے لئے ایک بنیادی اصول ہے، جسے چین اور امریکہ کو دو بڑے ممالک کے طور پر برقرار رکھنا چاہئے. جیت جیت تعاون وقت کا رحجان ہے، اور یہ چین امریکہ تعلقات کی ایک فطری ضرورت بھی ہے. چین اعلیٰ معیار کی ترقی پر عمل پیرا ہے، اور امریکہ اپنی معیشت کو بحال کر رہا ہے. ایسے میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی وسیع گنجائش ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہ صرف دونوں ممالک کے عوام بلکہ دنیا کو بھی فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔