کالمچین

تعلیم میں سرمایہ کاری ،وقت کی ضرورت

شاہد افراز خان، بیجنگ

Investment in education

ابھی حال ہی میں چین کی وزارت تعلیم، قومی ادارہ شماریات اور وزارت خزانہ کی جانب سے مشترکہ طور پر جاری کردہ بلیٹن کے مطابق، 2022 میں چین کی تعلیم میں مجموعی سرمایہ کاری پہلی مرتبہ 06 ٹریلین یوآن (تقریباً 840.6 بلین امریکی ڈالر) سے بڑھ کر 6.13 ٹریلین یوآن تک پہنچ گئی ہے .یوں پتہ چلتا ہے کہ چین میں تعلیمی شعبے میں سرمایہ کاری پچھلے سال کے مقابلے میں 5.97 فیصد زائد رہی ہے۔مزید اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ تعلیم پر حکومتی اخراجات سال بہ سال 5.75 فیصد بڑھ کر تقریباً 4.85 ٹریلین یوآن (تقریباً 679.5 بلین امریکی ڈالر) تک پہنچ چکے ہیں، جو کہ 2022 میں جی ڈی پی کا 4.01 فیصد بنتا ہے۔ایسا مسلسل 11ویں سال ہے جب ملک میں سرکاری تعلیمی اخراجات کا تناسب جی ڈی پی کے چار فیصد سے کم نہیں رہا۔بلیٹن نے یہ بھی بتایا ہے کہ تعلیمی اخراجات کے لیے عام عوامی بجٹ 2022 میں تقریباً 3.93 ٹریلین یوآن (تقریباً 550.6 بلین امریکی ڈالر) تھا، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 4.79 فیصد زیادہ ہے اور مجموعی عوامی بجٹ کے اخراجات کا 15.07 فیصد ہے۔

بلاشبہ کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کو مرکزی اہمیت حاصل ہے اور کوئی بھی سماج تعلیم کے بغیر معاشی و معاشرتی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا ہے۔ تعلیم ہی دراصل وہ بنیاد ہے جس پر کسی بھی معاشرے کی مضبوط بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اگر یہ بنیاد کمزور ہو گی تو معاشرہ پائیدار طور پر آگے نہیں بڑھ سکے گا اور اگر بنیاد مضبوط ہو گی تو ترقی کی نئی راہیں اُس ملک و معاشرے کا مقدر ہوں گی۔ عہد حاضر میں دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ یا تیزی سے ابھرتے ہوئے ملک کی مثال لے لیں، تعلیم و تحقیق ہی اُس ملک کی کامیابیوں کے پیچھے کارفرما ہو گی۔ دوسری جانب یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ تعلیم کسی معاشرے کو محض اقتصادی سماجی ترقی سے ہمکنار نہیں کرتی ہے بلکہ وہاں ایسی اعلیٰ اخلاقی قدروں کو بھی پروان چڑھاتی ہے جو نسل درنسل منتقل ہوتے ہوئے اُس معاشرے کا خاصہ بن جاتی ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک کے برعکس ترقی پزیر ممالک میں تعلیمی معیار کی پسماندگی سے بیروزگاری، غربت، بدعنوانی سمیت دیگر کئی سماجی مسائل نے جنم لیا ہے اور ترقی کے سفر میں بھی بے شمار رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں۔ تعلیم کے فروغ سے عروج کے سفر کی بات کریں تو ترقی پزیر ممالک میں ہمارے پاس سب سے بڑی مثال چین کی ہے جس نے انتہائی قلیل عرصے میں کرشماتی ترقی کی منازل تیزی سے طے کی ہیں اور آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے درجے پر فائز ہے۔

سن 1949میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد نئی حکومت کی پہلی ترجیح اور اہم ہدف صنعت کاری کا فروغ تھا لیکن جلد ہی اس حقیقت کا ادراک کیا گیا کہ صنعت کاری کی ترقی کیسے ممکن ہے جب ملکی آبادی کا تقریباً 80فیصد ناخواندہ ہے۔ چینی قیادت نے اس ہدف کے حصول کو اتنی بڑی تعداد میں ناخواندہ آبادی کے ساتھ ناممکن قرار دیا۔ چین کے لیے صورتحال اس لحاظ سے بھی گھمبیر تھی کہ دنیا کے گنجان آباد ترین ملک میں صرف تقریباً ایک لاکھ طلباء جامعات میں زیرتعلیم تھے جبکہ ہائی اسکولوں میں زیرتعلیم طلباء کی تعداد بھی تقریباً دس لاکھ تھی۔ اُس وقت چینی حکومت کی یہ کوشش بھی تھی کہ ملک کو ایک جدید معاشرے میں ڈھالا جائے لیکن تعلیمی پسماندگی اس عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ دوراندیش چینی قیادت نے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے شرح خواندگی میں اضافے کے لیے ایک قومی تعلیمی مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کے تحت ہزاروں افراد کو ملک کے کونے کونے میں بھیجا گیا تاکہ وہ بچوں اور بالغوں کو پڑھنا لکھنا سکھا سکیں اور انہیں ریاضی کی بنیادی تعلیم دی جا سکے۔ اس مہم کے دوران ملک بھر میں ہزاروں ”نائٹ اسکول” کھولے گئے اور کسانوں، مزدوروں، نوجوانوں غرضیکہ ہر مردو زن کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ کتاب و قلم سے اپنا تعلق استوار کریں۔ ان کوششوں کے جلد ثمرات سامنے آنا شروع ہوئے اور 1964میں کیے جانے والے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے کی مسلسل کوششوں کے باعث ملک میں ناخواندگی کی شرح 50فیصد کی سطح تک آ چکی ہے۔

 چین میں اگرچہ نو سالہ لازمی تعلیم کا قومی نظام 1986میں متعارف کروایا گیا مگر اس سیقبل بھی غریب گھرانوں کے بچے بلا معاوضہ تعلیم حاصل کر سکتے تھے۔ سن2000میں نو سالہ لازمی تعلیم پر مکمل عمل درآمد کو اسکول کی عمر کو پہنچنے والے بچوں کی 100فیصد شرح اندراج سے یقینی بنایا گیا۔ نو سالہ لازمی تعلیمی نظام سے حاصل شدہ کامیابیوں کی روشنی میں اعلیٰ تعلیم کی ترقی پر توجہ دی گئی۔ اعلیٰ تعلیمی نظام کی ترقی سے چین میں سائنس و ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبہ جات کو بھرپور فروغ ملا ہے۔آج چین سائنسی تعلیم کی بنیاد پر ایک معتدل خوشحال معاشرے کی تعمیر مکمل کر چکا ہے اور ایک جدید سوشلسٹ ملک کی تعمیر کے نئے سفر پر گامزن ہے۔

Leave a Reply

Back to top button