شاہد افراز خان ،بیجنگ
متعدد بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے 2024 میں چین کے معاشی امکانات کے بارے میں اپنے مثبت نقطہ نظر کا اظہار کیا ہے، جس میں متعدد زبردست عوامل کا حوالہ دیا گیا ہے.سوئس ملٹی نیشنل انویسٹمنٹ بینک یو بی ایس نے آمدہ سال کے لئے چینی صارفین کی مارکیٹ میں اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ یو بی ایس نے اپنی رپورٹ "ترقی کا نقطہ نظر کیا ہے؟” میں پیش گوئی کی ہے کہ 2023 میں دیکھی گئی بحالی کی رفتار 2024 تک جاری رہے گی، جو عالمی ترقی کے انجن کے طور پر چین کی پائیدار حیثیت کی نشاندہی کرتی ہے۔اس حوالے سے چین کے قومی ادارہ برائے شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کی پہلی تین سہ ماہیوں میں چین کی مجموعی جی ڈی پی نمو میں کھپت کا حصہ 83.2 فیصد رہا ہے۔یو بی ایس نے یہ توقع بھی ظاہر کی کہ تخفیف کاربن ٹرانسفارمیشن میں چین کی قیادت اور سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ اہم صنعتی سپلائی چین اپ گریڈ، آئندہ سال کے لئے پائیدار اور معیاری ترقی کا اہم سبب رہے گی.
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ نومبر میں چھ ماہ میں پہلی بار چین کی برآمدات میں اضافہ ہوا۔اسی باعث ماہرین چین کی تجارتی ترقی کے بارے میں ایک امید افزا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں، جس میں آٹوموبائل اور الیکٹرانک مصنوعات کی مضبوط برآمدات کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کی بحالی کی توقعات بھی شامل تھیں۔ان توقعات کو فچ ریٹنگز سے بھی تقویت ملتی ہے ، جس کا اندازہ ہے کہ چین کی جی ڈی پی 2023 میں 5 فیصد سے تجاوز کرجائے گی ، اور اگلے سال بھی اس سطح کے قریب پہنچ جائے گی ، کیونکہ کھپت ، صنعتی پیداوار اور لیبر مارکیٹوں میں مسلسل بہتری دیکھی گئی ہے۔جے پی مورگن کے مطابق سرمایہ کاری بھی 2024 کے لئے چین کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے اورمضبوط پالیسی حمایت کی بدولت بنیادی ڈھانچے کی نئی سرمایہ کاری کی توقع ہے۔
یہ بات بھی حوصلہ افزاء ہے کہ چین کی انتہائی بڑی مارکیٹ، مکمل صنعتی نظام اور ترقی کے نئے انداز میں عالمی کاروبار کے لیے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔چین کی فی کس جی ڈی پی 12,000 امریکی ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے اور اس کا متوسط آمدنی والا گروپ 400 ملین سے تجاوز کر گیا ہے، جس نے بڑی صلاحیت کے ساتھ ایک وسیع مقامی مارکیٹ تشکیل دی ہے۔ چین واحد ملک ہے جس کے تمام صنعتی زمرے اقوام متحدہ کی جانب سے درج کیے گئے ہیں اور اس کی صنعتی خوبیاں دوسرے ممالک سے قدرے نمایاں ہیں۔چین نے ویسے بھی مستقل طور پر ادارہ جاتی کھلے پن کو فروغ دینے، مینوفیکچرنگ سیکٹر میں تمام غیر ملکی سرمایہ کاری کی پابندیوں کو منسوخ کرنے، ٹیلی کمیونیکیشن اور طبی خدمات میں کھلے پن کو وسعت دینے اور سرحد پار ڈیٹا کے بہاؤ میں مساوی شرکت جیسے مسائل کو حل کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ غیر ملکیوں کے لیے کاروبار، مطالعہ اور سفر کو آسان بنانے کی بھی کوشش کی جائے گی۔
چین نے ویسے بھی مسلسل چھ سالوں سے تجارتی سامان کی درآمد اور برآمدی تجارت میں دنیا کے رہنما کے طور پر اپنی پوزیشن برقرار رکھی ہے، اور بیرونی سرمائے کے استعمال اور بیرونی سرمایہ کاری کے پیمانے کے لحاظ سے عالمی سطح پر دوسرے نمبر پر ہے۔آج چین بین الاقوامی اقتصادی میدان میں ایک اہم قوت بن چکا ہے۔چین کی جانب سےتجارتی ڈھانچے کو کافی حد تک اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ پرائمری ایکسپورٹ سیکٹرز نے ابتدائی محنت اور کم ویلیو ایڈڈ پراڈکٹس سے الیکٹرو مکینیکل مصنوعات اور ہائی ٹیک پروڈکٹس کی طرف منتقلی کی ہے جن کے لیے زیادہ جدید تکنیکی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔علاوہ ازیں ، ادارہ جاتی کھلے پن میں بھی مسلسل پیش رفت ہوئی ہے۔ مختلف اشیا اور عوامل کے لیے مارکیٹ تک رسائی کی حد کو مسلسل آسان بناتےہوئے، چین مختلف پائلٹ فری ٹریڈ زونز کی بنیاد پر ادارہ جاتی کھلے پن کی جستجو کر رہا ہے۔ اس کوشش کا مقصد یہی ہے کہ ایک جانب جہاں چین کے معاشی اشاریوں کو بہتر کیا جائے وہاں کساد کی شکار عالمی معیشت کی بحالی میں "چینی دانش” کے تحت حل فراہم کیا جائے۔