شاہد افراز خان ،بیجنگ
چین نے 1963 میں الجزائر کی مدد کے لئے اپنی پہلی طبی ٹیم بھیجی تھی جسے آج 60 برس سے زائد ہو چکے ہیں۔ گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران چین نے دنیا بھر کے 76 ممالک اور خطوں میں 30 ہزار سے زائد طبی عملے کو بھیجا ہے اور تقریباً 30 کروڑ مریضوں کو طبی خدمات فراہم کی ہیں۔اس عرصے میں چینی طبی عملے کے بارے میں ان گنت دل کو چھو لینے والی کہانیاں منظر عام پر آئی ہیں، جو عالمی صحت عامہ اور دنیا بھر میں لوگوں کی فلاح و بہبود میں ان کے اہم کردار کو اجاگر کرتی ہیں۔
اس وراثت کو آگے بڑھاتے ہوئے شمال مغربی چین کے صوبہ شانشی نے دسمبر 2022 میں اپنی 17 ارکان پر مشتمل 10 ویں میڈیکل ٹیم کو ایک سال کے مشن کے لیے ملاوی کے شہر لیلونگ وے بھیجا۔ مقامی ڈاکٹروں کی تشخیصی اور علاج کی مہارتوں کو بڑھانے پر خصوصی توجہ کے ساتھ ، میڈیکل ٹیم نے ریڑھ کی ہڈی کی سرجری پر ایک خصوصی تربیتی پروگرام شروع کیا تاکہ مقامی طبی پیشہ ور افراد کو جامع تربیت اور رہنمائی فراہم کی جا سکے۔اس تربیتی پروگرام کا مقصد مقامی ڈاکٹروں کو ریڑھ کی ہڈی کی سرجری کی تکنیک کی گہری تفہیم اور مہارت حاصل کرنے میں مدد کرنا تھا۔ اپنی روزمرہ طبی خدمات کے علاوہ، ٹیم نے صحت سے متعلق معلومات کو پھیلانے، مفت کلینک چلانے، اور ضروری طبی سامان اور مواد عطیہ کرکے مقامی لوگوں کے ساتھ فعال طور پر مصروف وقت گزارا ہے.مقامی لوگوں نے کہا کہ چینی ڈاکٹر ہزاروں میل دور سے یہاں آئے ہیں اور انہوں نے خاص طور پر شدید بیمار مریضوں کے علاج میں بہت مدد فراہم کی ہے۔ ملاوی کے ڈاکٹرز نے بھی کہا کہ وہ چینی طبی ماہرین کی قیمتی رہنمائی اور مدد کو سراہتے ہیں۔
شعبہ صحت سے ہٹ کر بھی افریقی خطے کی اقتصادی سماجی تعمیر و ترقی میں چین نے ہمیشہ اہم کردار اداکیا ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جو آج بھی ترقیاتی اعتبار سے بدستور قدرے پیچھے ہے۔اسی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے چین نے افریقی ممالک کو اپنا اہم ترقیاتی شراکت دار بنایا ہے۔حالیہ برسوں میں چین نے ایک مزید قریبی چین۔افریقہ ہم نصیب معاشرے کی تعمیر، نئے دور میں مختلف شعبوں میں چین۔افریقہ تعاون کے مسلسل فروغ، ایک دوسرے کی غیرمتزلزل طور پر حمایت اور چین افریقہ تعلقات میں نئی جہتیں متعارف کروانے کی مسلسل کوششیں کی ہیں۔ چین دنیا کا سب سے بڑا ترقی پذیر ملک ہےجبکہ افریقہ وہ براعظم ہے جہاں ترقی پذیر ممالک کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ افریقی ممالک کے ساتھ یکجہتی اور تعاون کا فروغ ، چین کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم سنگ میل ہے اور یہ چین کا طویل مدتی مضبوط اسٹریٹجک انتخاب بھی ہے، مشترکہ مقاصد اور اہداف نے چین اور افریقہ کو ایک دوسرے کےمزید قریب لایا ہے ۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے بھی افریقہ سے متعلق چین کی پالیسی کے بنیادی اصولوں کو وضع کرنے میں رہنمائی کی ہے۔ان اصولوں میں اخلاص، ٹھوس نتائج، ہمدردی و نیک نیتی، اور وسیع تر اور مشترکہ مفادات کی پیروی کو نمایاں اہمیت حاصل ہے.اس ضمن میں چین۔افریقہ تعاون فورم پلیٹ فارم کی کامیابیوں نے چین۔افریقہ تعاون کو ایک نئی اور بے مثال بلندی کی جانب بڑھایا ہے۔ صدر شی جن پھنگ اور افریقی رہنماؤں نےبیجنگ سربراہی اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ دونوں فریق مشترکہ طور پر ایک مضبوط چین۔افریقہ ہم نصیب سماج کی تعمیر کے لیے کام کریں گے، بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت تعاون کو آگے بڑھایا جائے گا اور چین۔افریقہ تعلقات میں ایک نیا سنگ میل قائم کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ چین اور افریقہ ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں اور چین۔افریقہ کی دوستی کو چٹان کی مانند مضبوط سمجھا جاتا ہے ۔چین کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ افریقہ کے ساتھ سیاسی باہمی اعتماد سازی کو مستحکم کیا جائے اور مختلف شعبوں میں عملی تعاون کو وسعت دیتے ہوئے افریقی براعظم میں امن اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے اپنی بھرپور مدد فراہم کی جائے ۔برسوں کی مخلصانہ کوششوں کے نتیجے میں چین۔افریقہ تعاون کا شجر پروان چڑھا ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ مزید تناور ہوتا جا رہا ہے۔