بڑوں کا قدر کریں
"حکیم” محمد لقمان پلی عمرکوٹ سندھ
آج کے انتہائی مصروف اور مجنون زمانے میں ایسی ہدایت پر مبنی تحریر انتہائی ضروری ہےکیونکہ جب ہم اس دور میں دیکھتے اور غور وفکر کرتے ہیں تو بہت سے ایسے مناظر سامنے آتے ہیں جن کو دیکھ کر دل میں ایک جلن ہوتی ہے بڑا دکھ ہوتا ہے حضرت انسان پر. جو ایک طرف بڑی ترقی کی گاڑی میں سوار ہو چکا ہے، جس کی تمام ضروریات مشین کی شکل میں تشکیل ہورہی ہیں، جو بڑی گاڑیوں میں سفر کر رہا ہے بڑے کاروبار چلا رہا ہے بہت بڑا آدمی بڑی مالیت والا بن گیا ہے لیکن اس کے اخلاقی اور انسانی حقوق و احترام تمام تر ذمہ داری کے ساتھ اس سے دور ہو گئے. بلکہ اس نے ہی دور کردیے ہیں. ایک شخص اپنے کاروبار اپنی معاشی ترقی میں اتنا مصروف ہو گیا ہے کہ سالوں تک اس کے ماں باپ اس کو دیکھنے کے لیے ترس رہے ہیں، اور وہ مغرور شخص چار پیسوں کے خاطر زمین اور آسمان کو بھول گیا ہے.
پیسا کمانا معاشی ترقی کرنا کوئی گناہ نہیں حلال رزق کی تلاش کرنا انسانی ضروریات ہے لیکن ان سے افضل تر اپنا فرض پورا کرنا ضروری ہے وہ ہے اپنے بڑوں کے ساتھ وقت بتانا جو آج کل کے نوجوان یہ مقدر سمجھ نہیں رہیں، کہ ان کی دعاؤں ان کے ساتھ کے ذریعے جو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے وہ ان کو نظر انداز کرکے دنیا میں مغرور ہو کر نہیں پائی جا سکتی. جو ماں باپ آپ کو پیدا کرتے ہیں آپ کو پال پوس کر بڑا کرتے ہیں ان کو دنیاوی ترقی کے حصول کے چکر میں بھول جانا کتنا بڑا گناہ ہو سکتا ہے اس کا اندازہ نہیں لیکن ان حقوق کا احترام نہ کرنا کسی نفع حاصل کرنے کے چکر میں اس نفع کو نفع کہنا نفع کی تذلیل ہے.
ترقی کرنے والا شخص یہ نہ بھولے کہ ان کا بنیاد ان کی ترقی کی مین سیڑھی وہ بوڑھے ماں باپ ہیں.
اس لیے ہر صورت میں ان کے ساتھ رہنا ان کی شفقتیں حاصل کرنا ان کو محبتیں دینا ان کی خدمات کرنا بعد از اپنی ترقی کو ترجیحات دینا انسان کہلاتا ہے ورنہ اس صورت کو نظر انداز کرکے ترقی کی طرف جانا کارون جیسا ہے جو بڑی ملکیت کے ساتھ زمین میں دب گیا نہ مال اسے بچا سگا نہ وہ مال کو.
تو میرے دوستو اپنے بڑوں کو وقت دو ان کا قدر کرو ان کی اصلاح لو ان کی ہدایات پر عمل کرو ان کی دعائیں حاصل کرو.