تمثیل احمد خان: ریڈیو کی آواز جو آج بھی زندہ ہے
نیلم ناز
تمثیل احمد خان — وہ آواز جو کبھی فضاؤں میں بُلند ہوئی، اور آج بھی دلوں میں سرگوشی کرتی ہے
تمثیل احمد خان محض ایک نام نہیں، بلکہ ایک داستان ہے جو وقت کے صفحات پر بکھری ہوئی ہے — ایک ایسی صدا جو کبھی فضاؤں میں گونجی تھی اور آج بھی خاموش دلوں میں مدھم سرگوشی بن کر زندہ ہے۔

ایک جانب انجینئرنگ کے پیچیدہ دائروں میں الجھی زندگی، اور دوسری جانب موسیقی کی آزاد فضائیں — تمثیل کی کہانی ان دو جہانوں کے حسین امتزاج کی دلکش مثال ہے۔ بنیادی طور پر ایک ٹیلی کام انجینئر، مگر دل وہ تھا جو لکشمی کانت پیارے لال کی مدھر دھنوں کے سحر میں اسیر ہو چکا تھا۔ یہی عشق تھا جو محض تئیس برس کی عمر میں اسے ریڈیو کی موجوں پر لے آیا، جہاں اس نے اپنی آواز کے رنگ بکھیرے۔
ریڈیو اس کے لیے محض روزگار نہ تھا، بلکہ اس کی روح کی زمیں تھی — ایک ایسا منبر جہاں اس کی شخصیت کے سبھی رنگ یکجا ہو کر نکھرتے تھے۔ تمثیل کوئی جامد آواز نہ تھا؛ وہ کبھی شوخ و شنگ، قہقہوں سے لبریز، اور کبھی سنجیدہ و فکری، جیسے ہر لمحہ اس کے لہجے کا اسیر ہو۔ اس کی زبان میں وہ جادو تھا جو سامع کے دل کو کبھی ہنسنے پر مجبور کرتا، کبھی سوچ کے دریچے کھول دیتا، اور کبھی روح کو ایسے چھو جاتا جیسے بارش کی پہلی بوند کسی پیاسی مٹی کو چھوتی ہے۔
اس کے پروگرام محض فرمائشی گیتوں کی فہرست نہ تھے، بلکہ وہ لطیف تہوں میں لپٹے ایسے مکالمے تھے جن میں کبھی سیاسی اشارے، کبھی معاشرتی دھڑکنیں اور کبھی ذاتی وابستگیوں کے عکس جھلکتے تھے۔ تمثیل کو خبر تھی کہ کہاں لہجہ بگھارنا ہے اور کہاں دلوں کو موسیقی کی موجوں میں بہنے دینا ہے۔
یہی تمثیل کی خوبصورتی تھی — ایک ایسی آواز جو بظاہر مدھم ہو کر بھی اپنے نقوش چھوڑ جاتی ہے۔
ریڈیو کی دنیا میں قدم رکھنے کے باوجود اس نے اپنی انجینئرنگ کی راہ کبھی نہیں چھوڑی۔ دو زندگیوں کو ایک ساتھ سمیٹ کر چلنا، شاید اسی کو ہم کثیر جہتی ہستی کہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ، جیسے اس کی ریڈیو پر موجودگی دھندلانے لگی، ویسے ہی یوٹیوب، فیس بک اور ساؤنڈ کلاؤڈ پر اس کے نقوش بھی کم ہوتے گئے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ اس نے دنیا سے نہیں، بس شور سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔
تو کیا یہ خاموشی پسپائی ہے؟ یا یہ کسی نئے جنم کی تمہید؟
یا شاید یہ محض ایک پرسکون وقفہ ہے — خود سے ملنے کا۔
سچ تو یہ ہے کہ تمثیل احمد خان جیسے لوگ فنا نہیں ہوتے۔ وہ وقت کے ہجوم سے ہٹ کر کسی گوشے میں بیٹھ جاتے ہیں — کسی مناسب لمحے، کسی مخلص سامع یا کسی نئی صبح کے انتظار میں۔
اور آج بھی اس کی پرانی نشریات — وہ دھیمے لب و لہجہ، وہ شوخ دھنیں، وہ فلمی خراج اور وہ خفیف سیاسی سرگوشیاں — ان دلوں میں زندہ ہیں جو کبھی اس کی آواز کے سحر میں مبتلا ہوئے تھے۔
کیونکہ کچھ آوازیں زندہ رہنے کے لیے شور کی محتاج نہیں ہوتیں۔
انہیں بس ایک بار سن لینا کافی ہوتا ہے۔