چین سے یوم فتح کا پیغام

شاہد افراز خان ،بیجنگ

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں، چین اقوام متحدہ کے امن مشن میں امن دستوں کے اعتبار سے سب سے بڑا اور مالی تعاون کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔چین کے اقوام متحدہ کے امن مشن میں شامل ہونے کے بعد سے گزشتہ 35 سالوں کے دوران، چینی فوج نے 26 مشنز میں جنوبی سوڈان اور لبنان سمیت 20 سے زائد ممالک اور خطوں میں  50 ہزار سے زیادہ امن دستے تعینات کیے ہیں۔

Parade

2024 میں خاص طور پر، چین کی مجموعی شراکت کی شرح 18.69 فیصد رہی، جو کہ برطانیہ، فرانس اور روس، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تین دیگر مستقل ارکان کے مشترکہ تعاون سے زیادہ ہے۔چین کے امن دستوں کی جھلک حال ہی میں یوم فتح کی مناسبت سے تھیان مین اسکوائر پر منعقدہ عظیم فوجی پریڈ میں بھی دکھائی دی۔

دوسری جنگ عظیم میں چین کی فتح کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر پریڈ میں چینی امن دستوں  کی شرکت بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور عالمی امن کے تحفظ کے لیے چین کے عزم کا مظہر ہے۔ اس اہم تقریب کے دوران چینی صدر شی جن پھنگ نے ایک مرتبہ پھر دنیا سے مخاطب ہو کر کہا کہ، "آج، انسانیت کو ایک بار پھر امن اور جنگ، مذاکرات اور تصادم، جیت جیت تعاون اور زیرو سم گیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔”انہوں نے عہد کیا کہ چینی عوام تاریخ کی دائیں سمت اور انسانی ترقی کے پہلو پر مضبوطی سے کھڑے رہیں گے۔شی جن پھنگ نے کہا، "ہم پرامن ترقی کی راہ پر گامزن رہیں گے، اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج  کی تعمیر کے لیے باقی دنیا کے ساتھ ہاتھ ملائیں گے۔”

فسطائیت مخالف عالمی جنگ میں فتح کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر  چین کے دارالحکومت بیجنگ میں منعقدہ اس  پروقار تقریب میں چینی صدر شی جن پھنگ کی دعوت پر وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف سمیت 26 غیر ملکی سربراہان مملکت و حکومت شریک ہوئے ۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور شمالی کوریا کے اعلیٰ رہنما کم جونگ اُن نے بھی اس یادگاری تقریب میں شرکت کی۔اس وسیع پیمانے پر اجتماع سے دنیا کو بھی ایک واضح پیغام دیا گیا کہ بالآخر امن ، انصاف ، حق اور سچ کی فتح ہوتی ہے۔

امن اور سلامتی کی بات کی جائے تو بڑی طاقتوں میں چین بہترین ریکارڈ کا حامل ملک ہے۔ 1949 میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سے، چین نے کبھی جنگ نہیں بھڑکائی، نہ کبھی کسی دوسرے ملک کے ایک انچ علاقے پر قبضہ کیا اور نہ ہی کبھی پراکسی جنگ کی۔

یہ دنیا کا واحد بڑا ملک ہے جس نے اپنے آئین میں پرامن ترقی کے راستے کو شامل کیا ہے، اور واحد جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک ہے جس نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کا  عہد کیا ہے۔اس فوجی پریڈ میں بھی، چینی افواج نے یک آواز ہو کر نعرہ لگایا: "انصاف غالب آئے گا! امن غالب آئے گا! عوام غالب آئیں گے!”

تاریخ واضح کرتی ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے مرکزی مشرقی محاذ کے طور پر، چین کی مزاحمتی جنگ نے اتحادیوں کی کارروائیوں کو اہم اسٹریٹجک مدد فراہم کی، یورپ اور ایشیا کے دیگر مقامات پر آپریشنز کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کی اور فتح میں اپنا حصہ ڈالا۔اپنے خطاب میں شی جن پھنگ نے دنیا بھر کی قوموں سے جنگ کے بنیادی اسباب کو ختم کرنے اور تاریخی سانحات کے دوبارہ رونما ہونے سے روکنے کی اپیل کی۔انہوں نے واضح کیا کہ مشترکہ سلامتی صرف اسی صورت میں محفوظ ہو سکتی ہے جب دنیا بھر کی قومیں ایک دوسرے کو مساوی سمجھیں، ہم آہنگی سے رہیں اور ایک دوسرے کی حمایت کریں۔انہوں نے کہا کہ "تاریخ ہمیں متنبہ کرتی ہے کہ انسانیت کا عروج و زوال ایک ساتھ ہے ۔” چینی صدر نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ چینی قوم کی عظیم نشاۃ ثانیہ کا راستہ نہیں روکا جاسکتا اور بنی نوع  انسان کی امن و ترقی کا عظیم نصب العین یقیناً کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔

ایک بڑے ملک کے رہنما اور گلوبل لیڈر کی حیثیت سے شی جن پھنگ نے عالمی صورتحال کے ادراک سے یہ واضح کر دیا کہ  آج بنی نوع انسان کو ایک بار پھر امن یا  جنگ، مکالمہ یا تصادم، مشترکہ جیت یا زیرو سم کا انتخاب کرنا ہے۔انہوں نے یہ عزم ظاہر کیا کہ چینی عوام ثابت قدمی کے ساتھ تاریخ کی درست سمت اور انسانی تہذیب کی ترقی کے ساتھ کھڑے رہیں گے اور پرامن ترقی کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے تمام ممالک کے عوام کے ساتھ مل کر بنی نوع  انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔


مزید خبروں یا اپڈیٹس کے لئے اردو ٹوڈے کا واٹس ایپ گروپ جوائن کریں.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے


Back to top button