
چین کی پرامن ترقی کا تصور
تحریر: شاہد افراز خان ،بیجنگ
چین کی جانب سے ابھی حال ہی میں عالمی فسطائیتمخالف جنگ کی فتح کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر ایک عظیم الشان فوجی پریڈ کا انعقاد کیا گیا ، جو اس وقت دنیا بھر میں بحث کا نکتہ بنی ہوئی ہے۔دنیا بھر میں مختلف حلقے جہاں چینی افواج کی نظم و ضبط پر مبنی شاندار پریڈ کی تعریف کر رہے ہیں وہاں ملک کی جانب سے پریڈ کے دوران پیش کیا جانا والا جدید اسلحہ اور دفاعی سازوسامان بھی زیربحث ہے۔
چینی صدر شی جن پھنگ، جو مرکزی فوجی کمیشن کے چیئرمین بھی ہیں ، نے اس موقع پر منعقدہ تقریب سے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ کہا کہ چینی عوام نے جنگ میں بے پناہ قربانیاں دے کر انسانی تہذیب کے تحفظ اور عالمی امن کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا۔ پرامن ترقی کے لیے چین کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے، شی جن پھنگ نے اقوام پر زور دیا کہ وہ تاریخی سانحات کو دوبارہ رونما ہونے سے روکیں اور اس بات پر زور دیا کہ امن اور ترقی کے لیے انسانیت کا مقصد غالب رہے گا۔
دنیا بھر کے ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہ پریڈ پرامن ترقی کے لیے چین کے غیر متزلزل عزم کی ایک پختہ تصدیق تھی، ساتھ ہی بین الاقوامی عدل و انصاف کو برقرار رکھنے کا ایک طاقتور پیغام بھی دیتی ہے۔بہت سے مبصرین نے کہا ہے کہ پریڈ نے تاریخ کو یاد رکھنے اور زوال سے عروج کو عزت دینے کی اہمیت کو اجاگر کیاہے۔عالمی برادری تسلیم کرتی ہے کہ چین کی قربانیوں اور استقامت کو "پوری دنیا کو یاد رکھنا چاہیے۔” اس تناظر میں شی جن پھنگ کا خطاب موجودہ اور مستقبل کی عکاسی کرنے والے آئینے کے طور پر تاریخ کے اہم کردار کو اجاگر کرتا ہے۔
عالمی حلقے اس بات کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ تاریخی سچائیوں کو تسلیم کرنے کے حوالے سے اپنے رویے میں مثبت اور تعمیری انداز لانا لازم ہے، اور خبردار کیا کہ جو لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے ہیں وہسنگین نتائج کے لیے بھی خود کو تیار رکھیں۔ مبصرین نے فاشسٹ مخالف جنگ میں چین کی شراکت کو "ناگزیر” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ واقعی اہم ہے کہ ہم چینی عوام اور دنیا بھر میں ہر جگہ موجود لوگوں کیجانب سے دی گئی بے پناہ قربانیوں کو یاد رکھیں جو اس وقت فاشزم کے خلاف لڑ رہے تھے۔
دنیا کے باشعور لوگ مانتے ہیں کہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ تاریخ کے سبق کو کبھی فراموش نہ کیا جائے، تاکہ آنے والی نسلیں جنگ کیبھاری قیمت اور امن کی قدر کو سمجھیں۔ آج نوجوانوں کو دوسری جنگ عظیم کی حقیقی تاریخ سے آگاہ کرنے کی ضرورت بھی ہے۔
کئی اسکالرز نے اس بات پر بھی زور دیا کہ چین کی مسلح افواج کی پریڈ نے پرامن ترقی کے لیے چین کے دیرینہ عزم کا اعادہ کیا۔دفاعی آلات کی نمائش کے علاوہ، جس چیز نے دنیا کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ نظم و ضبط، اتحاد اور پیپلز لبریشن آرمی کے جذبے کا مظاہرہ تھا۔یہ ایک واضح یاد دہانی تھی کہ چین کی طاقت جارحیت کے لیے نہیں، بلکہ خودمختاری کے دفاع، استحکام کے تحفظ اور عالمی امن کے فروغ کے لیے ہے۔
اس پریڈ نے لوگوں کو یاد دلایا ہے کہ فوج کیضرورت ملک کی پرامن ترقی کے تحفظ کے لیے ہے، نہ کہ دوسرے ممالک پر جبر کے لیے۔ویسے بھی چین نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ دوسرے ممالک کو کبھی بھی یکطرفہ پابندیوں یا مسلح حملے کی دھمکی نہیں دیتا ہے بلکہ تمام تنازعات کے پرامن حل کی کوشش کرتا ہے اور مستقل طور پر پرامن بقائے باہمی کے اصولوں کا دفاع کرتا ہے۔فوجی پریڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اپنی پرامن ترقی کی حفاظت کرنے اور عالمی امن میں کردار ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔