شاہد افراز خان ،بیجنگ
چین آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور 1.4بلین باشندوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں، مگر چین نے خود کو وقت کے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے جدید زرعی اصولوں کی بدولت فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنایا ہے۔بیجنگ میں قیام کے دوران بارہا یہ چیز مشاہدے میں آئی کہ یہاں پھل اور سبزیاں سارا سال دستیاب رہتی ہیں۔پاکستان کی طرح یہاں بھی چار موسم ہیں اور عام طور پر سال میں تین فصلیں ہوتی ہیں ،لیکن اس کے باوجود یہاں موسمی پھلوں اور سبزیوں کا تصور نہیں۔ یہاں چین کی جدید زرعی مہارت سامنے آتی ہے جس کے تحت حالیہ برسوں میں چینی عوام کو کبھی بھی خوراک کی کمی کا مسئلہ درپیش نہیں آیا ہے۔ ابھی حال ہی بیجنگ کے مضافات میں ایک گرین ہاوس سبزی فارم جانے کا اتفاق ہوا جہاں براہ راست سورج کی روشنی اور مٹی کے بغیر سبزیوں کی کاشت کاری کی جاتی ہے۔اس فارم ہاوس میں ہائیڈروپونک جدید زرعی طریقے کی بدولت پندرہ سے زائد اقسام کی سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔اس طریقہ کار کے تحت سبزیوں کی افزائش کے لیے غذائی محلول استعمال ہوتا ہے اور سبزیاں بھی زمین سے سطح سے قدرے اوپر کاشت کی جاتی ہیں۔یوں ایک تو کیڑوں کا کوئی خطرہ نہیں رہتا اور دوسرا کسی بھی کیمیائی اسپرے کے عدم استعمال کی وجہ سے سبزیوں کا ذائقہ بھی بہترین رہتا ہے اور ظاہری ساخت بھی آنکھوں کو بھاتی ہے۔اس جدید طریقے کی بڑی خوبیوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اگر روایتی طریقے سے سبزیوں کے حصول میں دو سے تین ماہ لگتے ہیں تو یہاں صرف 45 سے 50 دن کا عرصہ درکار ہے۔ دوسرا جدید مشینری کے استعمال کے باعث غذائی محلول دوبارہ قابل استعمال رہتا ہے اور عام فصلوں کی نسبت اس طریقے میں صرف دس فیصد پانی استعمال میں آتا ہے۔پاکستان کی بات کی جائے تو ایسے علاقے جو خشک ہیں اور پانی کی کمی کا مسئلہ ہمیشہ درپیش رہتا ہے ،وہاں یہ طریقہ آزمایا جائے تو بہترین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
اس گرین ہاوس میں روشنی، درجہ حرارت، نمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ارتکاز سب کچھ مقررہ ہے۔ اس سے پودے 24 گھنٹے یکساں طور پر بڑھ سکتے ہیں ۔ یوں ہائیڈرو پونک طریقے اور گرین ہاؤس کو ملاتے ہوئے سارا سال سبزیوں کا حصول ممکن ہے ۔دوسرا محدود رقبے سے بھی فصلوں کی زیادہ پیداوار ممکن ہے۔ ہائیڈرو پونک طریقے سےسبزیوں کی کاشت کے عمل کو مجموعی طور پر سمویا جائے تو تین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں یعنیٰ بہترین ذائقہ، زیادہ پیداوار اور یہ عمل ماحول دوست بھی ہے ۔
یہ تو محض ایک مثال ہے جبکہ چین بھر میں گزشتہ چار دہائیوں کے دوران شعبہ زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے۔ خوراک کی پیداوار اور اہم زرعی مصنوعات کی فراہمی ،کلیدی زرعی ٹیکنالوجی کے معیار کو بلند کرنے، صنعتوں کے ذریعے دیہات کی ترقی اور کسانوں کے معیار زندگی میں بہتری اور جدید زرعی اصولوں کی بدولت آج چین خوراک میں خودکفیل ہو چکا ہے جبکہ زرعی مصنوعات کی درآمدات و برآمدات کے حوالے سے بھی دنیا کے بڑے ترین ممالک میں شامل ہے۔زرعی شعبے میں چین کے کمال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برس چین کی اناج کی پیداوار 683 ارب کلو گرام کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے ۔ آج چین میں قابل کاشت رقبہ 117 ملین ہیکٹر تک پہنچ چکا ہے۔ زراعت میں سرمایہ کاری کی بدولت پیداوار میں اضافہ ہوا جس سے زرعی تجارت کو فروغ ملا اور ملک بھر میں ایگری۔فوڈ انڈسٹری کی مضبوطی اور کاروباری مواقعوں کو بھرپور وسعت ملی۔اس ضمن میں چین جدت کے تحت اعلیٰ معیار کی زرعی ترقی کے نظریے پر عمل پیرا ہے۔ دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی بدولت کسانوں کو اپنی مصنوعات آن لائن فروخت کرنے کے مواقع ملے ہیں اور اشیاء کی ترسیل میں بھی آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ اس طرح شہری۔دیہی ڈیجیٹل خلا کو نمایاں حد تک کم کیا گیا ہے۔انٹرنیٹ نے دیہی علاقوں میں انسداد غربت کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں نمایاں مدد فراہم کی ہے جبکہ دیہی باشندوں میں شعور اجاگر کرنے اور کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی میں بھی معاونت ملی ہے۔
چین اور زراعت
چین ایک طویل عرصے سے زرعی تہذیب و تمدن کا حامل ملک چلا آ رہا ہے جس میں کاشتکاروں کی فلاح و بہبود اور زراعت کے تحفظ کو ہمیشہ اہمیت دی گئی ہے۔ کسانوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے گزرتے وقت کے ساتھ مربوط اور جدید پالیسیاں ترتیب دی گئی ہیں۔ زرعی ترقی کے لیے قابل کاشت رقبے میں اضافہ ، روایتی زرعی اصولوں کو ترک کرتے ہوئے جدید مشینری کا استعمال ، زرعی اجناس کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ،زرعی مصنوعات کی فروخت کے لیے ای کامرس سمیت نقل و حمل کی سہولیات کی فراہمی ،زرعی تعلیم کا فروغ اور کاشتکاروں کی تربیت جیسے امور کی بدولت چین میں گزشتہ کئی برسوں سے شاندار فصلیں جسے ہم "بمپر کراپس” کہہ سکتے ہیں ، حاصل ہو رہی ہیں۔
یہ بھی پڑہیے
دنیا کا سب سے بڑا تجارتی زون
بیجنگ ،سرمائی کھیلوں کا محفوظ اور تاریخی انتخاب
چین کی اعلیٰ قیادت واضح کر چکی ہے کہ زراعت ، دیہی علاقوں اور کسانوں سے متعلق مسائل کو حل کرنا قیادت کی اولین ترجیح ہے۔اسی باعث ملک میں کسانوں کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، دیہی معاشیات میں نمایاں بہتری آئی ہے اور دیہی علاقوں نے ترقی کی بدولت بالکل نئی شکل اختیار کرلی ہے۔زراعت ، دیہی علاقوں اور کسانوں سے متعلق امور میں قابل ذکر کامیابیوں کے بعد چین کی کوشش ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں کی یکساں ترقی کو آگے بڑھایا جائے۔اس ضمن میں چین کی کوشش ہے کہ فصلوں کی معیاری پیداوار حاصل کی جائے ، زرعی ٹیکنالوجیز میں خود انحصاری کی کوشش کی جائے، کاشتکاروں کو زیادہ اناج اگانے کی ترغیب دینے سمیت کاشتکاروں کے لیے سبسڈی میں اضافہ کیا جائے۔چین کے اقدامات یقیناً پاکستان سمیت دیگر تمام ایسے ممالک کے لیے قابل تقلید ہیں جن کی معیشت کا بڑی حد تک دارومدار زراعت پر ہے۔جدید زراعت پائیدار معاشی ترقی کی ایک ایسی ٹھوس بنیاد ہے جس کی مدد سے ایک مستحکم معاشرے کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔