پاکستان اور روس کے تعلقات کا ایک جائزہ
غلام اصغر بھٹو.
بی ایس; پاکستان اسٹڈیز.
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد.
پاکستان 14 اگست 1947 کو قائم ہوا تو اسے دنیا کی دونوں سپر پاور ممالک امریکہ اور اس وقت کے سوویت یونین (روس) نے اپنے طرف مدعو کیا. 1945 سے 1991 والے دورانیے کو سرد جنگ کا دور کہا جاتا ہے جب امریکہ روس کے ساتھ سرد جنگ میں ملوث تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران الائیڈ پاورز (اتحادی طاقتیں) یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور ان کے اتحادیوں نے مرکزی پاورز کو شکست دے ڈالی اور یوں جنگ عظیم اختتام پذیر ہوئی.
اس جنگ کے بعد دنیا میں دو ہی ایسی ریاستیں یا طاقتیں رہی تھیں جن کو ایک دوسرے کے مدمقابل سمجھا جاتا تھا جن میں ایک امریکہ اور دوسری سوویت یونین (آج کا روس) تھی. ان دونوں کے نظریات ایک دوسرے سے مختلف تھے، روس اشتراکیت اور امریکہ سرمایہ داری نظام کا بانی تھا.
دنیا میں ان دونوں ممالک نے اپنے اپنے پیروں کو مضبوط بنانے اور اپنا اثرورسوخ رکھنے کے لیے دوسری ریاستوں کو اپنے نظام میں آنے کی پیشکش شروع کردی پھر ہوا یوں کہ یہ پیشکش پاکستان کو آزادی ملنے کے بعد ہی آگئی.
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے امریکہ کا دورہ کیا اور یو ایس ایس آر کمیونزم (اشتراکیت) کے خلاف امریکہ کیپٹلسٹ (سرمایہ داری) میں شمولیت اختیار کی۔ سوویت یونین (روس) نے اسے ایک سرزنش اور توہین کے طور پر لیا۔چنانچہ اس نے بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کیے اور پاکستان کو مکمل طور پر نظرانداز کیا۔
پاک روس تعلقات اس وقت مزید خراب ہوئے جب پاکستان نے 1954 میں (SEATO) سیٹو اور 1955 کے فوجی معاہدوں (CENTO) سینٹو میں شمولیت اختیار کی یہ دونوں معاہدے امریکہ کی قیادت میں کمیونسٹ کے خلاف بنائے گئے تھے. یو ایس ایس آر (USSR) کمیونزم پر یقین رکھتا تھا، اس وقت ایسے نظریے کو اسلامی نظریات کے برعکس لیا گیا اور یہ وجہ اہم سمجھتی جاتی رہی جس نے مذہبی عنصر کی وجہ سے روس اور پاکستان کو ایک دوسرے سے دور رکھا۔ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات رہے جس کی وجہ سے روس کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کو بہتر بنانے میں آسانی پیدا ہوئی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ جنگ 1965 میں روس نے بھارت کی کھل کر حمایت کی تھی۔ یہاں تک کہ یہ اسلحہ اور فوجی ہارڈ ویئر کا سب سے بڑا سپالئر بن گیا۔ آگے چل کر پھر پاکستان کی وزارت خارجہ نے روس کے ساتھ تعلقات کو اچھا بنانے کی کوششیں شروع کردی اور پھر یہ روس کی وجہ سے 1965 کو جنگ ختم کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی ثالثی کرائی گئی۔
1971 میں پاکستان اور یو ایس ایس آر نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت کراچی میں ساحلی بنیاد پر انٹیگریٹڈ اسٹیل مل کی تعمیر کے لیے تکنیکی مالی مدد فراہم کرنے پر اتفاق کیا معاشی دائرہ کے اندر پھر کراچی میں پاکستان کی سٹیل مل دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس عظیم الشان منصوبے کا سنگ بنیاد 30 دسمبر 1973 کو اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا تھا۔ انٹیگریٹڈ سٹیل مل کی تعمیر اور تعمیر کا کام، جس کا ملک میں پہلے کبھی تجربہ بھی نہیں ہوا، سوویت ماہرین کی نگرانی میں پاکستانی تعمیراتی کمپنیوں نے انجام دیا.
یہ جو کچھ تعلقات بھتر ہوئے تھے پھر 1979 میں ایک بار پھر خراب ہوئے جب 24 دسمبر 1979 کو سوویت یونین نے 1978 کے سوویت افغان دوستی معاہدے کو برقرار رکھنے کے بہانے افغانستان پر حملہ کیا اور یہ تعلقات روس کے افغانستان پر حملے کے ایک ناخوشگوار واقعے تک پہنچے جس واقعہ میں یہ سوویت یونین ٹوٹ کر سوویت یونین سے روس بن گیا۔ یاد دلاتا چلوں کہ یہ سرد جنگ کا دور تھا امریکہ سپر پاور بننا چاہتا تھا، اور اس نے پاکستان کی حمایت سے افغان جہاد کی تربیت اور حمایت کی جس نے باآلخر سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا. 25 دسمبر 1991 کو سوویت یونین کی تحلیل نے سرد جنگ کا خاتمہ کیا۔ یو ایس ایس آر کا ٹوٹنا 1980 کی دہائی کے آخر میں مختلف آئینی جمہوریہ میں بڑھتی ہوئی بدامنی کے ساتھ شروع ہوا اور 26 دسمبر 1991 کو ختم ہوا. جس کے بعد روس سپر پاور نہیں رہا۔ لیکن پھر بھی یہ ایک طاقتور ملک رہا۔ پاکستان کے تعلقات روس کے مخالف رہے کیونکہ پاکستان نے امریکہ کی مدد سے افغانستان کے مجاہدین کی بھرپور تربیت کی، اسلحہ دیا اور سوویت یونین کے خلاف منظم کیا۔ پاکستان نے سرد جنگ کے دوران طویل عرصے سے سوویت مخالف مہم اور بعد میں سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ کی کھلی حمایت کی تھی.
برسوں بعد پاکستان اور روس دونوں ممالک کے تعلقات میں تبدیلی آئی ہے۔ جب 2011 میں پاک امریکہ تعلقات چٹان کی تہہ پر پہنچے تو اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تزویراتی تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے دونوں ممالک نے ابتدائی طور پر مشترکہ بنیادوں کو تلاش کرنے کے لیے خاموشی سے کام کیا۔ برسوں پر محیط کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس نے 2016 میں تاریخ میں پہلی بار مشترکہ مشقوں کے لیے اپنی فوجیں پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ تب سے، دونوں ممالک باقاعدگی سے ان مشقوں کا انعقاد ڈرزبہ (دوستی) کے نام سے کر رہے ہیں اور وہ اس تعاون کو مزید گہرا کرنا چاہتے ہیں۔ پھر 06 اپریل 2021 کو روسی وزیر خارجہ دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچے۔ اس دورے نے دونوں ممالک کو اور قریب کیا اور قابل ذکر معاہدوں پر پہنچے۔
دورے کے دوران دونوں ممالک نے اقتصادی، توانائی اور دفاعی شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا اور کورونا سے درپیش صحت اور معاشی چیلنجوں پر خیالات کا تبادلہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے مسائل اور دہشتگردی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اہم کردار نبھانے کا کہا گیا. صحت کے دائرے میں وبائی مرض کو کم کرنے کے لیے، روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے پاکستان کو اینٹی کوویڈ ویکسین کی پچاس ہزار خوراکیں فراہم کی ہیں اور V-سپوتنک مزید ڈیڈ لاکھ فراہم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ پاکستان روسی تیار کردہ ویکسین کی تقریبا 50 لاکھ خوراکیں خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ روسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ روس ویکسین کی تیاری میں پاکستان کی مدد کرے گا۔
توانائی کے دائرے میں یہ اعلان سامنے آیا کہ روس کی جانب سے 1100 کلومیٹر گیس پائپ لائن کی تعمیر جلد شروع کر دی جائے گی۔ جنوبی بندرگاہی شہر کراچی کو مشرقی شہر لاہور سے جوڑنے والی اس پائپ الئن پر تخمینہ 2 بلین ڈالر لاگت آئے گی اور اس سے سالانہ 4.12 بلین کیوبک میٹر گیس کی ترسیل متوقع ہے۔
اگر اہم تعلقات کو وقت کے ساتھ دیکھا جائے تو 2014 روس نے پاکستان پر ہتھیاروں کی پابندی اٹھا لی۔ اس کے بعد 2015 میں 2 بلین ڈالر کی نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن کی تعمیر کا معاہدہ اور پاکستان کو ایم آئی 35 ہیلی کاپٹروں کی فروخت کا معاہدہ ہوا۔ 2016 میں پاکستان اور روس نے پہلی بار فوجی مشقیں شروع کیں اور چین کے ساتھ مل کر افغانستان پر کئی ملاقاتوں میں میزبانی کی. اس کے بعد 2017 میں پاکستان SCO میں شامل ہوا۔ 2018 میں، دونوں ممالک نے انسداد دہشت گردی تعاون گہرا کرنے کے لیے ایک مشترکہ فوجی کمیشن قائم کی.
سال 2019 میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات بشکیک میں ہوئی۔ پاکستان اور روس نے کچھ معاہدے پر دستخط کر دیئے اور بیرونی خلا میں ہتھیاروں کے رکھنے پر مشترکہ بیان بھی دیا. سال 2021 میں، روسی وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا، بین الاقوامی مسائل، علاقائی مذاکرات اور دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اسی سال 2022 میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے 23 فروری سے روس کے دو روزہ دورہ بھی کیا.
یہ بھی پڑھیے
آٹھواں بھائی: ایک نئے براعظم کی دریافت
روسی انقلاب اور اشتراکیت کی ابتدا
اگر ایسے ہی اچھے طریقے سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ چلے آتے ہیں تو دونوں ممالک کے قومی مفادات پورے ہو سکتے اور خصوصی پاکستان اس تعلقات سے بڑے مفادات حاصل کرسکتا ہے. پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہماری انڈسٹری بھی زراعت پر مبنی ہیں, قومی مفاد کو نظر میں رکھ کر پاکستان روس کو زرعی چیزیں بھیج سکتا ہیں جیسے پاکستانی جوزارت تجارت نے روسی فیڈریشن کی زراعت اور خوراک کی مارکیٹ میں حصہ داری کے لیے ایک حکمت عملی تیار کی تھی اور اس سلسلے میں برآمدات کے لیے لیموں کی اقسام، آلو، چاول، دودھ کی مصنوعات اور تمباکو سمیت پانچ بڑی مصنوعات کی نشاندہی کی گئی تھی. اس کے برعکس پاکستان روس سے توانائی, معاشی, دفاعی, سائنس اور ٹیکنالوجی اور بہت سارے اور شعبہ جات میں تعلقات کو مزید بہتر بنا سکتا ہے اور امید بھی یہی کی جاتی ہیں کہ مستقل میں پاک – روس تعلقات اچھے رہیں گے.